Tuesday, 30 May 2017

اک زمانہ وہ بھی تھا

اک زمانہ وہ بھی تھا
فاروقی کے قلم سے
اک زمانہ وہ بھی تھا جب یہ آج کی جدت اور ٹیکنالوجی سرے سے تھی ہی نہیں
پر سنا ہے اپنے بڑوں سے وہ زمانہ تھا بہت پرسکون
ہرطرف سکون ہی سکون امن شانتی پیار و محبت بڑے وافر مقدار میں میسر تھا
گھر کچے در -و- دیواریں چھوٹی.
پر اعتبار اعتماد بھروسہ یقین بہت پکا ہوا کرتا تھا
اچھا اس زمانہ کی چند باتیں جن سے امن و سکون تھا
ان میں سے اک تو موبائل کا نہ ہونا تھا . نہ ہوتا تھا موبائل نہ گھنٹوں کی کالیں اور نہ ہی لڑائ جگھڑے اور دیگر مسائل
اچھا وہ وقت تھا خط کا پہلے تو کبوتر سے خط بھیجا جاتا تھا
پر یہ نہیں پتہ کبوتر سے کس طرح خط بھیجا جاتا تھا. سوچتا تو ہوں پر پھر کہتا ہوں سچ ہی ہوگا یہ کبوتر کا قصہ
پھر ڈاک کا زمانہ آیا . کتنا اچھا لگتا تھا جب کسی کا خط آتا تھا اتنی خوشی ہوتی کے الفاظ ہی نہیں کہ اس خوشی کو لکھ سکوں
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ کبھی ڈاکیا خط لے نہیں آتا تو لوگ ڈاکیے سے جا کے پوچھتے تھے بھئ کوئ ڈاک نہیں آئ حلقہ احباب و یاراں کی طرف سے .
میں بہت چھوٹا تھا بس اتنا یاد ہے کہ اس وقت موبائل نہیں ہوتے تھے ٹی وی بھی بلیک اینڈ وائٹ ہوتے
اپنوں سے ملاقات کا ذریعہ بس خط ہی تھا دن اچھے تھے محبتیں عام تھیں
میں اپنے نانا ابو کے گھر گیا ہوا تھا ان دنوں کھیلنا کودنا سب چھوٹے ماموں کے ساتھ ہوتا تھا.
چونکہ میرے کزن (خالہ کے بیٹے) ملتان رہتے تھے تو ماموں بھی ان سے بہت پیار کرتے تھے
اکثر ان کے خط کا انتظار کرتے
جب کافی دن گزر جاتے تو خود خط لکھتے پھر انتظار کہ کب جواب آۓ گا جب بہت دنوں بعد جواب آتا خط ملتا تو ان کا چہرہ دیکھنے لائق ہوتا
اتنی خوشی کہ شائد کوئ خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو...
کبھی کبھار جب کافی دن گزر جاتے اور خط نہ آتا اس جانب سے تو میں گواہ ہوں ماموں بستر میں منہ چھپا کر گھنٹوں روتے
ہر روز مجھے اپنے ساتھ لیتے اور ڈاکیے کے پاس جا کہ پوچھتے پر ہر روز ڈاکیا سر نفی میں ہلاتا..
پھر آہستہ آہستہ وقت بدلنا شروع ہوا
اور گاؤں میں
پی ٹی سی ایل .پی.سی.او بن گے
اک دن ماموں نے اپنے گھر میں کہا کہ میں ملتان جا رہا ہوں ملنے گھر سے اجازت مل گی .مجھے نہیں یاد میں نے اسرار کیا یا نہیں پر اتنا ضرور یاد ہے کہ میں بھی ملتان گیا ماموں کے ساتھ
اتفاق .، جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ ماموں کے چہیتے بھانجا صاحب تو آج ہی صبح اپنے ماموں کے ہاں جانے کے لئیے روانہ ہو چکے ہیں..
ماموں اور میں ملتان جبکہ بھانجا ادھر چیچہ وطنی پہنچ چکا
پھر چند دن وہاں رکا اور نہ چاہتے ہوۓ بھی مجھے کسی آنے والے کے ساتھ ادھر چیچہ وطنی بھیج دیا گیا جبکہ ماموں وہاں ہی رک گۓ.
آتے وقت خالہ نے پچاس روپے دئیے
ان دنوں کافی ہوتے تھے پچاس روپے
اچھا ادھر جب گھر پہنچا تو کزن سے ملاقات ہوئ . بچہ تھا     ۔     نا  میں. بتایا کزن کو کہ آج تو ہم بہت امیر ہیں ساتھ ہی وہ خالہ کے دئیے پچاس روپے نکال کر دیکھاے.
کزن نے کہا کہ چلو آو ہم ماموں سے بات کرتے ہیں
یہ سن کے کہ ہم بھی آج فون پر بات کریں گے راضی ہوگئے
تھوڑی دیر بعد میں اور میرا کزن ہم پی سی او میں تھے
بڑی مشکل سے کال ہوئ دوسری طرف والے دوکاندار نے کہا پانچ منٹ انتظار کرو ان کو بلا کے لاتا ہوں
تھوڑا وقت گزرا اور فون خود دوسری طرف سے آ گیا .بس ایک دو منٹ بات ہوئ اب تو یاد بھی نہیں کہ بات کیا ہوئ ماموں اور کزن کے درمیان. اور ہماری خواہش بات کرنے کی وہ ادھوری ہی رہ گئ
پی سی او والے نے فون سننے کے پچاس روپے مانگ لئے اور مجبورا  مجھے دینے پڑے اب پھر جیب خالی تھی
پر خوشی اتنی کہ ہم نے فون پر بات کی
وقت پھر بدلہ اور موبائل نے جگہ لے لی اب گھنٹوں کے پیکج لگا کر روز اک ہی جگہ فون کر کے پوچھا جا رہا ہوتا ہے ہور سنا ...
اس سے ہماری زندگی میں مسائل بڑھ گئے جب آپس میں گھنٹوں باتیں ہوں گئیں تو باتوں سے باتیں نکلیں گئیں اور لڑائیاں دوریاں جنم لیں گیں
رشتے ناطے تعلقات ختم ہوں گے
اور آج ہر فرد اس کا رونا روتا نظر آتا ہے اب یہ ہرفرد کا مسلہ بن چکا ہے
میرے خیال میں اب اس پر کنٹرول کرنا ناممکنات میں سے ہے
کسی سے فون پر بات کر لو تب لڑائ کسی کو تھوڑے دن کال نہ کرو تب غصہ کہ کیوں نہیں کیا فون..
.صرف سمجھ سوچ سے چلو اور پھر سے وہی خط والا پیار امن سکون تلاش کرو بلکہ پیدا کرو
تحریر: ولید رضا فاروقی



No comments:

Post a Comment