Wednesday, 7 February 2018

انسان کا قول فعل اور ان کا تضاد

نسان کے قول اور فعل میں تضاد شائد وافر مقدار میں موجود ہے یہ بندہ بھی نا کیا عجب چیز ہے۔ زبان سے جو کہتا ہے اور گلہ پھاڑ پھاڑ کے جو لوگوں کو واعظ کرتاہے خود اس سے کوسوں دور ہے ۔ زبان سے بولے جانے والے الفاظوں پر اگر عمل بھی کیا جاتا تو آج زندگی میں اتنی زیادہ پریشانیاں نہ ہوتیں۔
آجکل سوشل میڈیا پر ہر کوئ اچھی اچھی باتیں کرتا نظر آتا ہے لیکن ان پر عمل ذرا سا بھی نہیں ہوتا۔ کبھی غور کیا ہم لوگوں نے کہ ان خوبصورت باتوں پر عمل کرنے سے ہماری زندگی میں کتنی آسانیاں پیدا ہونگی۔
چند اقوال جو اکثر سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں ان کو آج لکھتے ہیں اور ان پر ہلکا سا تبصرہ۔۔۔۔،

🔵 شیشہ اور رشتہ دونوں نازک ہوتے ہیں شیشہ غلطی سے ٹوٹتا ہے جبکہ رشتہ غلط فہمی سے
↩اس کو ہم لوگوں نے  صرف لکھنے اور پڑھنے تک محدود کر رکھا ہے  اگر اس پر ذرا سا بھی عمل کر لیا جائے تو رشتے کبھی بھی نہیں ٹوٹتے۔
ہم سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں اور حقیقت جانے بنا ہی اپنا فیصلہ صادر فرما چکے ہوتے ہیں اگر تھوڑی سی ہمت کی جاتی تو سب کچھ بچ جاتا پر کیا کریں ہمارے نزدیک یہ باتیں صرف لکھنے پڑھنے کے لیے ہیں بس،

سورہ حجرات میں اللہ نے فرمایا. اے ایمان والو جب کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ھو کہ تم کسی گروہ کو لا علمی سے نقصان پہنچا دو. اور پھر جو کچھ تم نے کیا  ھو اس پر نادم ھو

💠 ٹوٹے ہوئے لوگ جب کسی سے جڑتے ہیں تو بہت مخلص ہوتےہیں۔
↩ یہ ایک حقیقت ہے، واقعی جس نے کچھ کھویا ہوتا ہے اُس کو قدر ہوتی ہے
لیکن یہ معاشرہ اس ٹوٹے ہوئے شخص کا ماضی دیکھ کر اس پر تنقید کے تیر برسانا شروع ہو جاتا ہے۔یہ جانے بنا ہی کہ ماضی میں قصور کس کا تھا،
ہر موقع پر جب ماضی کے طعنٰے سننے کو ملیں تو انسان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے جس سے بندہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ اندر سے بکھرے ہوئے انسان کو زندگی سے نفرت ہو جاتی ہے پر کیا ہوسکتا ہے ایسی باتیں لکھنے  کے لیے تو اچھی لگتی ہیں ان پر عمل خاصا مشکل کام ہے
💠 کبھی کبھار اچھے لوگوں سے بھی غلطیاں
ہو جاتی ہیں ، اسکا مطلب یہ نہیں
ہوتا کہ وہ برے ہیں
اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی
     انسان ہیں -
↩جی ہاں انسان کوئی بھی کسی بھی درجے پر ہی کیوں نہ ہو کبھی نہ کبھی غلطی کر ہی جاتا ہے آخر انسان جو ٹھرا ۔اکثر ہمارے بزرگ اِک مثال دیا کرتے ہیں انسان تو غلطی کا پُتلا ہے جو کبھی غلطی نہ کرے وہ انسان ہے ہی نہیں۔ لیکن ہمارے سامنے سب کچھ ہونے کے باوجود ہم کسی کی ایک غلطی پر اُس کی سب اچھائیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور اُس کی بات بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔


🔄 آخر میں صرف یہی کہوں گا کہ اے انسان تو کس طرف جا رہا ہے جتنی اچھی اچھی باتیں تو کرتا اُن پر عمل کر کے تو دیکھ تیری زندگی جنت بن جائے گی۔۔۔۔۔

⤴ تحریر :  ولید رضا فاروقی

waleedrazafarooqi.blogspot.com

Friday, 13 October 2017

عہد حاضر اور ہمارا ایمان


پچھلے دو تین دن سے سوشل میڈیا پر چاند کی تصویر پر کچھ لائنوں کو جوڑ توڑ کے یاحسین لکھا دیکھایا گیا جس کو لے کر ہر شخص اس پر واہ واہ کرتا نظر آتا ہے
چند ایک لوگ تو اس کو خاص طبقوں کی حقانیت کا سبب بتا رہے ہیں
اہلحق کے خلاف بول کر اپنی زبان کو گندی کر رہے ہیں
.
میں اس تصویر پر بات نہیں کرتا
لوگ اس کو سچ سمجھتے ہیں  یا جھوٹ سب کا اپنا فعل نظریہ
میں کسی کو غلط نہیں کہتا..
..
بات آج کی مسلمان کے ایمان  کی کروں گا
آج چاند پر شبہہ نظر آئ تو شور مچا دیا
ارے بھائ ہم نے ان ہستیوں کو اپنا امام مانا ہے ان کے غلام ہیں ہم
آپ ص اصحاب رسول اہلبیت پر ایمان ان سے عشق پیار محبت ہم چاند پر ان کا نام دیکھ کر آلو بینگن تربوز پر نام دیکھ کر نہیں کرتے بلکہ ان پاک اور عظیم ہستیوں کو ہم نے آقا ص کی نسبت کی وجہ سے مانا.
کیونکہ اصحاب پیغمبر رض اہلبیت رض نے آقا ص اور اسلام کے تحفظ اور اشاعت کی خاطر اپنا آپ قربان کیا اپنی اولادوں کو اپنے سامنے قربان ہوتے دیکھا
پر اک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے
قرآن بھی اصحاب و اہلبیت کی مدحت میں بولتا ہے
 اور ہم نے بھی کلمہ پڑھ کر عہد کیا ان پاک ہستیوں کے نام پر اپنی جان تک قربان کر دیں گے پر ان کی گستاخی برداشت نہیں کریں گے

خدارا اسلام کو مذاق نہ بناؤ
الحمداللہ ان ہستیوں کی حقانیت کے لئیے اب کسی دلیل کی ضرورت نہیں
سب سے بڑی دلیل قرآن وسنت آپ کے پاس ہے اور قرآن و حدیث ان عظیم ہستیوں کی مدحت سے بھرے ہوۓ ہیں

فاروقی کے قلم سے

Thursday, 28 September 2017

Waleed Raza farooqi

ولید رضا فاروقی

آخر مولوی بھی انسان ہے


🌱 _*آخر مولوی بھی انسان ہے*_ 🌱

 _*صرف دو منٹ وقت نکال کر پڑھے*_

آج عشاء کی جماعت کے بعد ایک بزرگ فوراً کھڑے ہوئے اور کوئی اعلان کرنے لگے۔
 سب کو یہی لگا کہ کوئی صدقہ/زکوٰۃ/خیرات مانگنے والا ہوگا ہمیشہ کی طرح۔ لیکن ارے! یہ کیا؟ سب کو مخاطب کر کے بٹھایا لیکن پھر خود ہی رونے لگا اور مسجد سے نکل کر چلا گیا؟
مجھ سے رہا نا گیا اور اُن کے پیچھے بھاگ چلا، نجانے اتنا تیز کیسے      جا رہا تھا کہ وہ بوڑھا اور میں جوان لیکن صرف میں جانتا ہوں کہ کس مشکل سے میں اُن تک پہنچ پایا۔
جب میں پہنچا تو میں نے پوچھا اُن سے کہ آخر وہ روئے کیوں اور بھاگ کیوں آئے وہاں سے؟
 ایک مسلمان ہی مسلمان کے کام آتا ہے کیونکہ یہ امت ایک جسم کی مانند ہے۔
انہوں نے جان چھڑانی چاہی لیکن آخرکار میرے بہت اصرار کے بعد اُنہوں نے آنسو پونچھے اور اپنی پوری ہمت مجتمع کر کے کہا کہ
"میں فلاں(مدرسے کا نام بتانا مناسب نہیں سمجھتا) مدرسے میں مدرس ہوں، الحمدللہ رب کا بہت شکر ہے تین ہزار (۳۰۰۰) روپے تنخواہ ہے میری، پچھلے ۱۰ ماہ سے میری زوجہ بیمار ہیں اور رب تعالیٰ کسی نا کسی طرح ترتیب بنا دیتا ہے اور علاج چلتا رہتا ہے۔
کل صبح ۸ بجے ہم نے پشاور جانے کا ارادہ کیا ہے کیونکہ ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا ہے۔ لیکن میرے پاس صرف ۲۵۰ روپے ہیں۔ کبھی زندگی میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا،
بس جو بھی ضرورت ہوتی رب تعالیٰ کوئی نا کوئی ترتیب بنا ہی دیتا رہا۔ لیکن آج بہت ہی بےبسی میں نجانے کیسے میں اس مسجد تک پہنچ آیا اور یہاں "چندہ/زکوٰۃ/صدقہ" مانگنا چاہا۔
 لیکن بیٹا مجھے پھر شرم آگئی۔    کہ جس اللہ نے آج تک کبھی میرا ساتھ نا چھوڑا اور ہر مشکل،
 ہر تکلیف اور ہر آزمائش میں میرا ساتھ دیا اور میرا سہارا بنا، آج میں اسی خالق کے گھر میں کھڑا اسکی مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہوں۔ میری غیرت نے گوارہ نہ کیا"
الحمدللہ مولانا صاحب کیلئے ترتیب بن گئی ہے۔
*مگر ہمارے لئے سوچنے کی بات ہے کہ*
*بیٹا عصری تعلیم کے حصول کیلئے اکیڈمی میں ٹیوشن کیلئے تو خود جائیگا مگر دینی علم حاصل کرنے کیلئے مولوی صاحب کو پڑھانے کیلئے گھر پر بلایا جائیگا۔*
*پھر ٹیوشن والے ماسٹر کو پڑھانے کیلئے صرف ایک مضمون کے ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰ روپے تک فیس دیتے ہیں مگر مولوی صاحب کو پورے مہینے کے صرف ۳۰۰۰ روپے۔*
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے؛ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا ایسا عمل مسلمان یا انسان کے شایانِ شان ہے؟
 آخر وہ بھی تو انسان ہی ہوتا ہے، گھر بار، بیوی بچے، ان سب کے اخراجات اور ضروریات ہوتی ہیں۔ تو اپنی استطاعت کے مطابق انکی مدد کرلیا کریں، کہ ایسے لوگ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ آخر وہ ہماری آخرت بنانے کیلئے لگے ہوئے ہیں اور کسی بھی زیادتی پر منہ سے "اُف" تک نہیں نکلتی اُن کے۔
مسلمان وہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کی کسی بھی ضرورت میں انکے ساتھ ایک سگے بھائی کی مانند کھڑا رہے اور بقدر استطاعت انکی مدد کریں، کہ میرے آقا(ص) نے فرمایا "میری امت ایک جسم کی مانند ہے"۔ انسان وہ ہے کہ جس کا کسی بھی معاملے میں کسی کو بھی پرکھنے کا معیار انسانیت ہو، ناکہ اسکا پیشہ، اسکا حسب نسب، اسکی دولت و غربت یا پھر اسکی امیری یا فقیری۔ جو اکیڈمی اور مدرسے دونوں کو ایک نظر سے دیکھے۔ جو ٹیوشن دینے والے اور درس دینے والے دونوں کے دکھ درد، خوشی غمی کا خیال کرتے ہوئے دونوں کیساتھ برابر کا سلوک کرے۔ اور زندہ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جن کا ضمیر زندہ، جو حق اور سچ سننے اور برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہو، جو اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اسے سدھارنے کا عزم کریں۔

*اُمید ہے کہ جو ساتھی بھی یہ تحریر پڑھیں گے وہ اپنی مسجد کے امام اور مدارس کے مدرسین کا حال پوچھنے کی زحمت ضرور کرینگے،*
 اور اُنکی خاطرخواہ مدد بھی فرمائینگے, انکے دکھ درد میں شریک بھی ہونگے۔
 یاد رکھیں جو قوم اساتذہ (دینی/دنیاوی علوم کے) کی قدر نا کرے، وہ قوم دنیا میں اپنی عزت اور وقار کھو دیتی ہے اور دنیا کے نقشے سے مٹ جاتی ہے۔
خدارا اس مظلوم طبقے پہ رحم کریں۔ ان کا خیال رکھیں۔ یہ اللہ والے صرف اللہ سے ہی مانگتے ہیں مگر بطور مسلمان و انسان ہمارا بھی فرض ہے کہ انکا خیال رکھیں،
 انکی عزت کریں اور انکی قدر میں کمی نا ہو۔
*اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔*

 
 ✍
🌱🥀🌱🥀🌱🥀🌱🥀🌱🥀🌱

Thursday, 21 September 2017

پاکستان کی سیاست


سیاست
پاکستان میں جو چند چیزیں شائد کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتیں ان میں اس ملک کی عوام ، سیاست، اور غلام صحافت ہے
ارض پاک کی ترقی میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ صاحب اقتدار پارٹی کا دوسری جماعتوں کے وفاقی اور صوبائ ممبران کو ہر سطح پر نظراندازکرنا بھی ہے صرف اگلے الیکشن میں اپنا امیدوار کامیاب کروانے کے لیے غریب عوام کا حق ان تک نہیں پہنچایا جاتا
اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو مستقبل قریب میں اس وطن عزیز کا شمار بھی پسماندہ ممالک میں ہونے لگے گا
پاکستان کی سیاست آجکل میدان جنگ کا منظر پیش کرتی ہے
تاریخ میں شائد پہلی دفعہ حکومتی جماعت اپوزیشن  کے خلاف سڑکوں پر ہے
چند سال قبل میاں صاحب کے نزدیک سیاست سڑکوں پر نہیں ہوتی.
لیکن اب اچانک میاں صاحب کو سڑکوں پر سیاست کرتے دیکھ کر واضع ہو رہا ہیکہ یہ لوگ اس ملک کی خاطر نہیں بلکہ اپنے بچاؤ کی خاطر سارا ڈرامہ رچا رہے ہیں ان کی اولادیں پرسکون زندگیاں بسر کر رہی ہیں بس اس غریب کا بچہ ہی مرنا ہے جو دو وقت کی روٹی مشکل سے کماتا ہے
اور پھر عوام مرے کیوں نا میاں صاحب سے عقیدت جو ٹھری عوام کو
کل تک جو لوگ شہید ناموس رسالت جناب ممتاز قادری کی شہادت کا ذمہ دار اسی نواز شریف کو ٹھرا رہے تھے آج سب بھول  کے اس نواز شریف کی گاڑی کو بوسہ دیتے نظر آتے ہیں کل جب قادری نے پھندے کو چوما تھا اور اس ظالم نظام کے سامنے اپنا خون بہایا تب عوام اسی نواز شریف سے بدلہ لینے کا عہد قسمیں کھا کھا کہ کررہی تھی آج وہی لوگ نواز شریف کے دفاع میں دن رات ایک کر چکے ہیں
یہ عوام بہت جلد اپنا آپ اپنا ماضی اپنے عہد بھول جاتی ہے
ابھی بھی وقت ہے پھر سے اپنے کل پر نظر ثانی کرو
اور ووٹ کی طاقت سے اس پرچی کی طاقت سے اسلام کے دشمنوں کو شکست دے کے ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بناد دو
کوئ بھی حکمران آۓ گا وہ اپنے آپ کو ہی سنوارے گا
اگر ترقی چاہتے ہو تو حکمران نہیں لیڈر تلاش کرو
اگر یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے تو پھر ووٹ اسلام دشمنوں کے لیے کیوں
صرف دعاوں میں ہی حضرت عمر رض جیسا حکمران مانگنے والی قوم ووٹ دیتے وقت کیوں نیک صفت کا انتخاب کرنے میں بخل سے کام لیتی ہے
آو اس ملک کی خاطر اسلام اور مقدس ہستیوں کے تحفظ کی خاطر اس الیکشن میں ان تمام سیاسی جماعتوں کا مکمل بائیکاٹ کریں اور عہد کریں کہ ووٹ صدیق رض دے نوکر دا ....
تحریر: ولید رضا فاروقی
 فاروقی کے قلم سے

Tuesday, 30 May 2017

اک زمانہ وہ بھی تھا

اک زمانہ وہ بھی تھا
فاروقی کے قلم سے
اک زمانہ وہ بھی تھا جب یہ آج کی جدت اور ٹیکنالوجی سرے سے تھی ہی نہیں
پر سنا ہے اپنے بڑوں سے وہ زمانہ تھا بہت پرسکون
ہرطرف سکون ہی سکون امن شانتی پیار و محبت بڑے وافر مقدار میں میسر تھا
گھر کچے در -و- دیواریں چھوٹی.
پر اعتبار اعتماد بھروسہ یقین بہت پکا ہوا کرتا تھا
اچھا اس زمانہ کی چند باتیں جن سے امن و سکون تھا
ان میں سے اک تو موبائل کا نہ ہونا تھا . نہ ہوتا تھا موبائل نہ گھنٹوں کی کالیں اور نہ ہی لڑائ جگھڑے اور دیگر مسائل
اچھا وہ وقت تھا خط کا پہلے تو کبوتر سے خط بھیجا جاتا تھا
پر یہ نہیں پتہ کبوتر سے کس طرح خط بھیجا جاتا تھا. سوچتا تو ہوں پر پھر کہتا ہوں سچ ہی ہوگا یہ کبوتر کا قصہ
پھر ڈاک کا زمانہ آیا . کتنا اچھا لگتا تھا جب کسی کا خط آتا تھا اتنی خوشی ہوتی کے الفاظ ہی نہیں کہ اس خوشی کو لکھ سکوں
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ کبھی ڈاکیا خط لے نہیں آتا تو لوگ ڈاکیے سے جا کے پوچھتے تھے بھئ کوئ ڈاک نہیں آئ حلقہ احباب و یاراں کی طرف سے .
میں بہت چھوٹا تھا بس اتنا یاد ہے کہ اس وقت موبائل نہیں ہوتے تھے ٹی وی بھی بلیک اینڈ وائٹ ہوتے
اپنوں سے ملاقات کا ذریعہ بس خط ہی تھا دن اچھے تھے محبتیں عام تھیں
میں اپنے نانا ابو کے گھر گیا ہوا تھا ان دنوں کھیلنا کودنا سب چھوٹے ماموں کے ساتھ ہوتا تھا.
چونکہ میرے کزن (خالہ کے بیٹے) ملتان رہتے تھے تو ماموں بھی ان سے بہت پیار کرتے تھے
اکثر ان کے خط کا انتظار کرتے
جب کافی دن گزر جاتے تو خود خط لکھتے پھر انتظار کہ کب جواب آۓ گا جب بہت دنوں بعد جواب آتا خط ملتا تو ان کا چہرہ دیکھنے لائق ہوتا
اتنی خوشی کہ شائد کوئ خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو...
کبھی کبھار جب کافی دن گزر جاتے اور خط نہ آتا اس جانب سے تو میں گواہ ہوں ماموں بستر میں منہ چھپا کر گھنٹوں روتے
ہر روز مجھے اپنے ساتھ لیتے اور ڈاکیے کے پاس جا کہ پوچھتے پر ہر روز ڈاکیا سر نفی میں ہلاتا..
پھر آہستہ آہستہ وقت بدلنا شروع ہوا
اور گاؤں میں
پی ٹی سی ایل .پی.سی.او بن گے
اک دن ماموں نے اپنے گھر میں کہا کہ میں ملتان جا رہا ہوں ملنے گھر سے اجازت مل گی .مجھے نہیں یاد میں نے اسرار کیا یا نہیں پر اتنا ضرور یاد ہے کہ میں بھی ملتان گیا ماموں کے ساتھ
اتفاق .، جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ ماموں کے چہیتے بھانجا صاحب تو آج ہی صبح اپنے ماموں کے ہاں جانے کے لئیے روانہ ہو چکے ہیں..
ماموں اور میں ملتان جبکہ بھانجا ادھر چیچہ وطنی پہنچ چکا
پھر چند دن وہاں رکا اور نہ چاہتے ہوۓ بھی مجھے کسی آنے والے کے ساتھ ادھر چیچہ وطنی بھیج دیا گیا جبکہ ماموں وہاں ہی رک گۓ.
آتے وقت خالہ نے پچاس روپے دئیے
ان دنوں کافی ہوتے تھے پچاس روپے
اچھا ادھر جب گھر پہنچا تو کزن سے ملاقات ہوئ . بچہ تھا     ۔     نا  میں. بتایا کزن کو کہ آج تو ہم بہت امیر ہیں ساتھ ہی وہ خالہ کے دئیے پچاس روپے نکال کر دیکھاے.
کزن نے کہا کہ چلو آو ہم ماموں سے بات کرتے ہیں
یہ سن کے کہ ہم بھی آج فون پر بات کریں گے راضی ہوگئے
تھوڑی دیر بعد میں اور میرا کزن ہم پی سی او میں تھے
بڑی مشکل سے کال ہوئ دوسری طرف والے دوکاندار نے کہا پانچ منٹ انتظار کرو ان کو بلا کے لاتا ہوں
تھوڑا وقت گزرا اور فون خود دوسری طرف سے آ گیا .بس ایک دو منٹ بات ہوئ اب تو یاد بھی نہیں کہ بات کیا ہوئ ماموں اور کزن کے درمیان. اور ہماری خواہش بات کرنے کی وہ ادھوری ہی رہ گئ
پی سی او والے نے فون سننے کے پچاس روپے مانگ لئے اور مجبورا  مجھے دینے پڑے اب پھر جیب خالی تھی
پر خوشی اتنی کہ ہم نے فون پر بات کی
وقت پھر بدلہ اور موبائل نے جگہ لے لی اب گھنٹوں کے پیکج لگا کر روز اک ہی جگہ فون کر کے پوچھا جا رہا ہوتا ہے ہور سنا ...
اس سے ہماری زندگی میں مسائل بڑھ گئے جب آپس میں گھنٹوں باتیں ہوں گئیں تو باتوں سے باتیں نکلیں گئیں اور لڑائیاں دوریاں جنم لیں گیں
رشتے ناطے تعلقات ختم ہوں گے
اور آج ہر فرد اس کا رونا روتا نظر آتا ہے اب یہ ہرفرد کا مسلہ بن چکا ہے
میرے خیال میں اب اس پر کنٹرول کرنا ناممکنات میں سے ہے
کسی سے فون پر بات کر لو تب لڑائ کسی کو تھوڑے دن کال نہ کرو تب غصہ کہ کیوں نہیں کیا فون..
.صرف سمجھ سوچ سے چلو اور پھر سے وہی خط والا پیار امن سکون تلاش کرو بلکہ پیدا کرو
تحریر: ولید رضا فاروقی



Saturday, 4 June 2016

ارضِ پاک اور نا اہل حکمران

ارضِ پاک اور نا اہل حکمران

آج کے اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس ملک کے تعلیمی اداروں نظام تعلیم صحت کے وسائل اور اس ملک کے ہسپتالوں سے لگایا جا سکتا ہے
اللہ پاک نے ارض پاک کو معدنیات سے مالا مال کیا ہے
ہمارے پیارے ملک پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جہاں چار چیزیں بکثرت پائی جاتی ہیں
بیماری ،غربت، جہالت اور کرپشن
مگر کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو سرا سر درست ہونے کے باوجود ہماری نظروں سے اوجھل ہیں
سرفہرست یہ کہ پاکستان دنیا میں سونے ( گولڈ ) کے ذخائر کا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے
صرف ریکوڈک کے سونے کی مالیت
بارہ سو ارب ڈالر ہے
شمالی وزیرستان کے علاقے میں پایا جانے والا تانبا اور سونا تین سو ارب ڈالر مالیت کا ہے
گلگت بلتستان اورہنزا کے علاقے میں ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کا سونا موجود ہے
یہ کل مالیت تقریبا پچیس سو ارب ڈالرز بنتی ہے
اگر کچھ کیئے بنا ہم ہر سال پچیس ارب ڈالر استعمال کریں تو یہ رقم
ختم ہونے میں سو سال کا عرصہ لگے گا
لیکن پھر بھی ہمارا شمار دنیا کے پسماندہ اور غریب معاشروں میں ہوتا ہے
اس کی وجوہات کیا ہیں...؟
میرے نزدیک اس کی وجوہات اس ملک کے نااہل حکمران ہیں
جن کو اسی ملک کی عوام اپنے اوپر مسلط کر چکی ہے
اس ملک پر وہ حکمران مسلط ہیں جو برسابرس حکومت کر کے بھی اس ملک کو ایک اچھا ہسپتال تک نہیں دے سکے
صرف آپ شریف خاندان کو ہی دیکھ لیں
نواز شریف کو آپ نےوزیر خزانہ ،دو دفعہ وزیراعلی ،پھر وزارت عظمی کے عہدے پر دیکھا ،اور اب پھر میاں صاحب تقریبا پچھلے تین سال سے اس ارض پاک کے وزیر اعظم ہیں
شہباز شریف بھی ایک لمبے عرصے سے پنجاب کے وزیراعلی کے عہدے پر براجمان ہیں
پاکستان کے قیام سے اب تک تقریبا پینتیس برس شریف خاندان کو اس ملک کی خدمت کا موقع ملا
لیکن اس طویل عرصے میں ملک کی نسبت شریف فیملی نے زیادہ ترقی کی ہے
پاکستان کی غریب عوام کا حق دبا کر باہر کے ممالک میں آف شور کمپنیاں بنا لی گئیں
میں نے تو صرف ایک بات نوٹ کی ہے اس ملک کے تقریبا سب ہی سیاستدان باہر کے ممالک میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں
تے ہیں

ان سیاستدانوں کے گھر کاروبار لندن اور واشنگٹن میں نظر آتے ہیں

یہ سیاستدان اپنا بخار تک بھی اس ملک سے ٹیسٹ نہیں کرواتے

تو پھر ان کو اس ملک پر حکومت کرنے کا حق کس نے دیا

یہ حکومت یہاں کرتے ہیں اور باقی زندگی مغربی ممالک میں گزارتے ہیں

ملک ِپاکستان کے حکمران اور وزرا ملک سے باہر اپنا علاج کرواتے ہیں

میاں نوازشریف صاحب تو اپنا طبی معائنہ بھی اس ملک سے نہیں کرواتے

ہمارے وزیر داخلہ جناب چوھدری نثار صاحب کی اہلیہ کا علاج جرمنی میں ہوتا ہے

جناب وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب اپنا چیک اپ لندن سے کرواتے ہیں

ذرداری صاحب اپنا علاج ملک سے باہر کرواتے ہیں

کیا اس ملک میں کوئ اچھا ہسپتال نہیں جہاں ان کا علاج ہو سکے

اس کا مطلب حکمرانوں تم اس ملک کو ایک بھی اچھا ہسپتال نہیں دے سکے

اس ملک کے حکمران تو اپنا علاج باہرممالک سے کرواتے ہیں جبکہ عوام ان ہی ہسپتالوں

میں سارا سارا دن لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتی نظر آتی ہے

دوسری طرف میاں نواز شریف صاحب کہتے ہیں کہ اپوزیشن مجھ سے سوال نہیں کرسکتی

یہ بیان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کا ہے

میں ان سیاستدانوں سے پوچھتا ہوں

یہ کیسی جمہوریت ہے ایک وہ زمانہ تھا جب ایک عام شخص امیرالمومنینسے بلاجھجھک پوچھ
 
سکتا تھا کہ جو آپکے حصے میں کپڑا آیا تھا اس سے آپ کا سوٹ نہیں بنتا تو آپنے

سوٹ کیسے بنوایا اس پر حضرت عمر فاروقنے یہ نہیں کہا کہ آپ میرے سے سوال نہیں
کر سکتے

میں امیرالمومنین ہوں

آخر کب عوام ان جعلی ڈگری والوں سے سوال کریں گے

کب ان کا احتساب ہو گا

تحریر: ولید رضا فاروقی