Thursday, 31 March 2016
Wednesday, 23 March 2016
آؤ پھر سے عہد کریں
ایک عرصہ سے میں عوام کے تاثرات تجزیات سن رہا ہوں ، لگ یوں
رہا تھا کہ اب عوام سدھر گی ہے آئندہ غلطی نہیں ہو گی۔
اور شہید ناموس رسالت غازی ممتاز قادری شہید کی شہادت کے فورا بعد
ہی اس پاک وطن کی عوام اور تمام مذہبی جماعتیں ایک
ساتھ کھڑے نظر آۓ
۔ مذہبی جماعتوں کا اتحاد دیکھ کر لگ بھی رہا تھا کہ اب ہمیں مستقبل میں کوئ
ہرا نہیں سکتا چند مٹھی بھر
لوگوں نے اس اتحاد کی مخالفت بھی کی لیکن وہ
مخالف گروہ آٹے میں نمک برابر تھا جو میرے نزدیک ملک دشمن گروہ ہے۔
غازی ممتاز قادری شہید کی شہادت سے چند ماہ قبل شہید ناموس صحابہ
غازی ملک اسحاق شہید غازی حقنواز شہید غازی عثمان شہید
سید غلام رسول
شہید اور دیگر شہدا کی شہادت کے بعد پاکستان کی عوام نے عہد کیا کہ سیاسی
وڈیروں سیاست کے
ٹیھکیداروں پاکستان پر قابض حکمرانوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے
شکست دیں گے ۔ اور اس کے چند ماہ قبل جب غازی ممتاز
قادری کو پاکستان کے حکمرانوں نے
رات کے اندھیرے میں عشق رسول ص کی پاداش میں پھانسی کے پھندے پر چڑھا کر نہ
صرف
اسلام دشمنی بلکہ ملک دشمنی کا واضع ثبوت دیا ۔
اس عظیم سانحہ کے بعد عوام نے
کھل کر پاکستان کے سیاست دانوں کی مخالفت کی بلکہ آئندہ ان قابض سیاستدانوں
کو ووٹ کی
طاقت سے شکست دینے کا عہد بھی کیا لیکن ان واقعات کو ابھی زیادہ
عرصہ نہیں ہوا اور عوام پاکستان اپنا کیا ہوا عہد بہت جلد بھول
گئے۔
آج پھر
حلقہ این اے 101 میں ن لیگ کو اس عوام نے جتوا کر اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر
خاموشی اختیار کی بلکہ اس ہونے
والے ظلم پر اعتماد کیا اور آئندہ ن لیگ کو گرین
سگنل مل گیا اس اس عوام کی بیوقوفی کا۔ اس حلقہ کی عوام بھنگڑا ڈال رہی
ہے بزرگ
عادمی ایسے ناچ رہے تھے جیسے پاکستان انڈیا سے کرکٹ کا میچ جیتا ہو
اگر ہم ایسے ہی اپنے محسنوں کو اتنی جلدی بھلاتے رہے تو وہ
وقت دور نہیں
جب آنے والی نسلوں کو ہمارۓ محسنوں کے متعلق کچھ پتہ تک نہیں ہوگا اور ان کا
نام لینے والا کوئ نہیں ہوگا۔
میں
اس عوام سے التجا کرتا ہوں لوٹ آؤ۔ آؤ پھر سے عہد کریں
کہ ووٹ کی طاقت سے ہم مذہبی جماعتوں کو کامیاب کروائیں گے ،
آؤ عہد کریں مسلک کو نہیں اسلام کو نافذ کریں گے آؤ عہد کریں
ووٹ آقا ﷺ کے غلاموں کو دیں گے آؤ آج
عہد کریں
ووٹ صدیق اکبر کے نوکر کو دیں گے آؤ آج عہد کریں اگلی اسمبلی کا
ہر ممبر مذہبی جماعت کا کارکن ہو گا اور آؤ آج عہد کریں
پاکستان سے فرقہ
پرستی کو ختم کر کے ایک ہو جائیں۔
ہاں آج عہد کریں کہ اس ملک میں اسلام کے نام لیوا کو تحفظ دیں گے
آؤ آؤ آؤ آج عہد کریں شہدا کے مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچا
کر دم لیں گے آؤ
آؤ آؤ آج عہد کریں۔۔۔۔
تحریر ولید رضا فاروقی
Sunday, 6 March 2016
حضرت انسان بھی کیا عجب چیز ہے
حضرت
انسان بھی کیا عجب چیز ہے
حضرت انسان بھی کیا عجب چیز ہے
اپنے آس پاس سے جو اسے سیکھنا چاہیے وہ تو سیکھتا نہیں بس اپنی مرضی اور اپنے مطلب کے لئیے سب کچھ کرتا ہے
بس اپنا فائدہ ہونا چاہیۓ دوسروں کا بھلے نقصان ہی کیوں نہ ہو رہا ہو
یہ انسان اپنے فائدے کے لیے اپنے سگے بھائ تک کا خون کرنے کو معمولی بات سمجھتا ہے
لیکن پرندے آج کے اس انسان سے بہت بہتر ہیں
میرۓ ابو کہا کرتے ہیں کہ روز پرندوں کو اپنے ہاتھ سے کچھ ڈال دیا کرو اس سے صدقہ بھی ہو جاتا ہے اور پرندے بھی اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں
اس پر عمل کرتے ہو میں مکان کی چھت پر پرندوں کو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑۓ ڈالنے گیا
چھوٹے ٹکڑوں کو چھت پر بکھیرے ہی تھے کہ ایک کوا آ گیا میں بھی ایک تھوڑا دور کھڑا ہو گیا
کوۓ نے ایک بھی ٹکڑا نہیں اٹھایا
اور وہاں بیٹھ کر کوا زور زور سے ٹیائیں ٹیائیں کرنے لگا اس کوۓ کی آواز سننی تھی کے کوۓ کی برادری آ گی کوا کافی دیر تک بولتا رہا جب تک کافی کوے اکٹھے ہو چکے تھے
تب اس کوۓ نے کھانا شروع کیا
میں یہ دیکھ کہ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر حضرت انسان کو کچھ ملے آج کے اس دور میں تو یہ اپنے سگے بھائ سے چھپاتا ہے ہمساۓ کو تو پوچھے گا ہی کیوں
پر پرندے نے پہلے دوسروں کو بلایا پھر خود کھایا
آج کا انسان تو اس پرندے سے بھی نہیں سیکھتا
پہلے میں نے کہا نا کہ یہ انسان مرضی کا غلام ہے
جی میں آۓ تو اپنے مرنے والوں کی قبروں پر اربوں لگا کر عالیشان محل بنوا دے اور پڑوسی صرف چند ٹکوں کو ترستا ہوا غربت کی وجہ سے خودکشی کر رہا ہو
قلم کار : ولید رضا فاروقی
اپنے آس پاس سے جو اسے سیکھنا چاہیے وہ تو سیکھتا نہیں بس اپنی مرضی اور اپنے مطلب کے لئیے سب کچھ کرتا ہے
بس اپنا فائدہ ہونا چاہیۓ دوسروں کا بھلے نقصان ہی کیوں نہ ہو رہا ہو
یہ انسان اپنے فائدے کے لیے اپنے سگے بھائ تک کا خون کرنے کو معمولی بات سمجھتا ہے
لیکن پرندے آج کے اس انسان سے بہت بہتر ہیں
میرۓ ابو کہا کرتے ہیں کہ روز پرندوں کو اپنے ہاتھ سے کچھ ڈال دیا کرو اس سے صدقہ بھی ہو جاتا ہے اور پرندے بھی اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں
اس پر عمل کرتے ہو میں مکان کی چھت پر پرندوں کو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑۓ ڈالنے گیا
چھوٹے ٹکڑوں کو چھت پر بکھیرے ہی تھے کہ ایک کوا آ گیا میں بھی ایک تھوڑا دور کھڑا ہو گیا
کوۓ نے ایک بھی ٹکڑا نہیں اٹھایا
اور وہاں بیٹھ کر کوا زور زور سے ٹیائیں ٹیائیں کرنے لگا اس کوۓ کی آواز سننی تھی کے کوۓ کی برادری آ گی کوا کافی دیر تک بولتا رہا جب تک کافی کوے اکٹھے ہو چکے تھے
تب اس کوۓ نے کھانا شروع کیا
میں یہ دیکھ کہ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر حضرت انسان کو کچھ ملے آج کے اس دور میں تو یہ اپنے سگے بھائ سے چھپاتا ہے ہمساۓ کو تو پوچھے گا ہی کیوں
پر پرندے نے پہلے دوسروں کو بلایا پھر خود کھایا
آج کا انسان تو اس پرندے سے بھی نہیں سیکھتا
پہلے میں نے کہا نا کہ یہ انسان مرضی کا غلام ہے
جی میں آۓ تو اپنے مرنے والوں کی قبروں پر اربوں لگا کر عالیشان محل بنوا دے اور پڑوسی صرف چند ٹکوں کو ترستا ہوا غربت کی وجہ سے خودکشی کر رہا ہو
قلم کار : ولید رضا فاروقی
Saturday, 5 March 2016
مولوی اور ہمارا معاشرہ
مولوی اور ہمارا معاشرہ
جو قوم اپنے اکابر اپنے علما کا خون چوسے وہ
قوم کبھی بھی رحمت خدا وندی کی مستحق نہیں ہو سکتی
اس بات پر کسی کو کوئ اعتراض نہیں ہو گا کہ مولوی زندگی کے ہر شعبہ میں کام کی چیز ہے
مثلا
اس بات پر کسی کو کوئ اعتراض نہیں ہو گا کہ مولوی زندگی کے ہر شعبہ میں کام کی چیز ہے
مثلا
زکوة وضو غسل میت کا غسل جنازہ نکاح پیدائش غرض
ہر جگہ پر مولوی کے بنا سب ناکام. نماز روزہ حج
چاہے انجنیئر ہو وکیل ہو یا ڈاکٹر
پر پھر بھی ہمارۓ معاشرے میں مولوی کی حثیت ایک میراثی سے بھی کم ہے
بیٹے کی شادی پر ڈھول بجانے والے میراثی کو چپ چاپ دس ہزار نکال کر دۓ دیا اور نکاح کے وقت لڑکے کا باپ مولوی سے پوچھتا ہے کتنے دوں
مولوی صاحب کہتے ہیں خدارا میراثی سے کم نا سمجھنا
ہمارۓ معاشرے میں مولوی کی قدر صرف غلام کی سی ہے
اور مولوی کی تنخواہ اتنی کہ اگر بیمار ہو جاۓ تو دوائ بھی ٹھیک سے نہیں آتی
مسجد کی تعمیر پر پچاس لاکھ لگا دیا جاتا ہے پر مولوی صاحب کی تنخواہ براۓ نام ہوتی ہے
مسجد کی کمیٹی کے پاس کچھ اضافی پیسے بچ جائیں تو ان کی سوچ و فکر کسی طرح اس پیسے کو پیشاب خانہ بیت الخلاء
اینٹ گارا مٹی میں کسی طرح لگا دیا جاۓ چاہے ان کو کوئ چیز بنی بنائ توڑ کر ہی کیوں نہ بنانی پڑۓ
مگر ان کے ذہن میں یہ نہیں آتا امام یا مدرس کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جاۓ یا ان کی کوئ ضرورت پوری کر دی جاۓ
میں جہاں رہتا ہوں میرۓ گھر کے قریب مسجد ہے وہاں پر امام مسجد کی تنخواہ صرف اٹھارہ سو روپے ہے
فروری کے آغاز ہی میں جب میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئیے مسجد گیا تو وہاں امام مسجد کی تنخوا پر بات ہو رہی تھی جو ابھی تک امام صاحب کو ادا نہیں کی گئ تھی
نمازیوں میں سے ایک شخص بولا مولوی صاحب کیا کریں ہم بمشکل آپ کی تنخوا ادا کرتے ہیں اگر آپ فری میں پڑھا سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ آپ کو اجازت ہے ہم خود اپنی اپنی نماز پڑھ لیا کریں گے
اور اس مسجد کے ساتھ منسلک جو گھر ہیں ان کی ماہانہ آمدن تقریبا ایک لاکھ فی گھر ہے
یہ آمدن میں نے امیر گھروں کی لکھی غریب گھر بھی منسلک ہیں
اور تقریبا پندرہ گھر امیر جبکہ باقی طبقہ کی بھی چالیس ہزار فی گھر ماہانہ آمدن ہے.
تین دن قبل میں اور میرا دوست مارکیٹ گۓ میرۓ دوست کو وہاں سے کچھ خریدنا تھا
ایک جوتا خریدا جو بارہ سو کا ملا
اب ایک شخص جس کا جوتا بارہ سو کا اور ایک امام مسجد کی تنخواہ دو ہزار سے بھی کم
کس طرح سے وہ اپنا اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہو گا
آقا ص کے فرمان کے مطابق ایک مسلمان حجر اسود سے افضل ہے تو ایک عالم دین کا مقام کیا ہو گا
اللہ تعالی کی رحمت تب ہی برسے گی جب ہم اس کے مقرب بندوں کو ان کا اصل اور حقیقی مقام دیں گے
قلم کار ولید رضا فاروقی
چاہے انجنیئر ہو وکیل ہو یا ڈاکٹر
پر پھر بھی ہمارۓ معاشرے میں مولوی کی حثیت ایک میراثی سے بھی کم ہے
بیٹے کی شادی پر ڈھول بجانے والے میراثی کو چپ چاپ دس ہزار نکال کر دۓ دیا اور نکاح کے وقت لڑکے کا باپ مولوی سے پوچھتا ہے کتنے دوں
مولوی صاحب کہتے ہیں خدارا میراثی سے کم نا سمجھنا
ہمارۓ معاشرے میں مولوی کی قدر صرف غلام کی سی ہے
اور مولوی کی تنخواہ اتنی کہ اگر بیمار ہو جاۓ تو دوائ بھی ٹھیک سے نہیں آتی
مسجد کی تعمیر پر پچاس لاکھ لگا دیا جاتا ہے پر مولوی صاحب کی تنخواہ براۓ نام ہوتی ہے
مسجد کی کمیٹی کے پاس کچھ اضافی پیسے بچ جائیں تو ان کی سوچ و فکر کسی طرح اس پیسے کو پیشاب خانہ بیت الخلاء
اینٹ گارا مٹی میں کسی طرح لگا دیا جاۓ چاہے ان کو کوئ چیز بنی بنائ توڑ کر ہی کیوں نہ بنانی پڑۓ
مگر ان کے ذہن میں یہ نہیں آتا امام یا مدرس کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جاۓ یا ان کی کوئ ضرورت پوری کر دی جاۓ
میں جہاں رہتا ہوں میرۓ گھر کے قریب مسجد ہے وہاں پر امام مسجد کی تنخواہ صرف اٹھارہ سو روپے ہے
فروری کے آغاز ہی میں جب میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئیے مسجد گیا تو وہاں امام مسجد کی تنخوا پر بات ہو رہی تھی جو ابھی تک امام صاحب کو ادا نہیں کی گئ تھی
نمازیوں میں سے ایک شخص بولا مولوی صاحب کیا کریں ہم بمشکل آپ کی تنخوا ادا کرتے ہیں اگر آپ فری میں پڑھا سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ آپ کو اجازت ہے ہم خود اپنی اپنی نماز پڑھ لیا کریں گے
اور اس مسجد کے ساتھ منسلک جو گھر ہیں ان کی ماہانہ آمدن تقریبا ایک لاکھ فی گھر ہے
یہ آمدن میں نے امیر گھروں کی لکھی غریب گھر بھی منسلک ہیں
اور تقریبا پندرہ گھر امیر جبکہ باقی طبقہ کی بھی چالیس ہزار فی گھر ماہانہ آمدن ہے.
تین دن قبل میں اور میرا دوست مارکیٹ گۓ میرۓ دوست کو وہاں سے کچھ خریدنا تھا
ایک جوتا خریدا جو بارہ سو کا ملا
اب ایک شخص جس کا جوتا بارہ سو کا اور ایک امام مسجد کی تنخواہ دو ہزار سے بھی کم
کس طرح سے وہ اپنا اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہو گا
آقا ص کے فرمان کے مطابق ایک مسلمان حجر اسود سے افضل ہے تو ایک عالم دین کا مقام کیا ہو گا
اللہ تعالی کی رحمت تب ہی برسے گی جب ہم اس کے مقرب بندوں کو ان کا اصل اور حقیقی مقام دیں گے
قلم کار ولید رضا فاروقی
پبلک ٹرانسپورٹ اور فحاشی
پبلک
ٹرانسپورٹ اور فحاشی
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم فحاشی اور بے
حیائ کے راستے پر چل نکلتی ہے اس قوم کے نوجوان طبقہ سے عزت غیرت جرات و
بہادری
اٹھ جاتی ہے نوجوان طبقہ ناکارہ ہو جاتا ہے- -
اور بے حیائ فحاشی کو جب اجتماعیت میسر ہو تب اس کو گناہ ناسور اور برائ کی بجاۓ فیشن ضرورت جمہوریت اور ماڈرن ازم کا نام دے دیا
جاتا ہے
اسی نام نہاد فحاشی اور بے
حیائ کے فیشن نے ہزاروں گھروں کو برباد کر دیا آۓ دن آپ سنتے ہیں کہ فلاں لڑکی فلاں کے ساتھ
بھاگ گئ
اس ماڈذن ازم کے کرتوتوں نے ایک شریف باپ کو رسوا کر دیا
صرف اس لئیے کہ اس کو ہم آج کے دور کی ضرورت سمجھ کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں- -
حالانکہ ایک اسلامی ملک کا شہری ہونے کی حثیت سے ایک مسلمان کی حثیت سے ہمیں اس ناسور فحاشی بے حیائ کے روک تھام کے لئیے
عملی اقدامات کرنے چاہیے تھے
لیکن خاموشی سے دوسروں کے ساتھ اہل علم بھی اس ناسور پر چپ سادھے ہوۓ ہیں--
میں ایک پچھلے تین سالوں سے مسلسل صبح کالج جاتا اور شام کو واپس آتا ہوں
اور بسوں میں سفر کے دوران جو میں نے دیکھا وہ آج آپ کے سامنے لکھ رہا ہوں
بسوں میں تقریبا ہر عمر اور ہر طبقہ کے لوگ سفر کرتے ہیں اور مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اسی سفر کا حصہ ہوتیں ہیں
اب اس ٹرانسپورٹ میں ان بسوں میں فلمیں ایک فیشن یا شائد مجبوری بن چکی ہے
ان فلموں میں انتہائ حیاء سوز مناظر دیکھاۓ جاتے ہیں
ان فحش مناظر کو اس بھری گاڑی میں عورتیں مرد بیٹھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور
ذرا سوچا جاۓ تو بہن بھائ
باپ بیٹی سفر کر رہیں ہوں اکٹھے
اور انتہائ حیاء سوز کلمات سن کر بھائ بہن سے نظریں چراتا ہے بہن بھائ
سے باپ بیٹی
سے اور بیٹی باپ سے
آج جب میں کالج سے واپس گھر آ رہا تھا تو انڈیا کی انتہائ بے حیائ پر مبنی فلم چل رہی تھی جس میں ایک شخض بار بار عورت کی عزت لوٹ رہا تھا
کبھی عورت کو اکسا رہا تھا ہمبستری کرنے کے لئیے
خدا کی قسم جوان لڑکیاں اور چالیس برس کی عورتیں بس میں تھیں فلم کی آواز اتنی زیادہ تھی کہ اور کچھ سنائ ہی نہیں دے رہا تھا
تقریبا چالیس کلومیٹر کا سفر طے کر چکا تھا میں اور یہ فحش مناظر بڑی آب وتاب سے چل رہے تھے
پر کوئ بھی نہیں بولا اس پر
کیا اس کام کے لئیے ہمارے اکابر ہمارۓ بڑوں نے قربانیاں دیں تھیں الگ اسلامی ریاست صرف نام کی بن گئ کام کی کب بنے گی
میں آج حکومت پاکستان سے
مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر سکول و کالج یونیورسٹیوں میں تبلیغ اسلام پر پابندی ہے
علما کی تقریروں پر پابندی
ہے اسلامی جلسوں پر پابندی ہے
تو پھر پبلک ٹراسپورٹ میں ان حیاء سوز فلموں پر بھی پابندی لگائ جاۓ
قلم کار : ولید رضا فاروقی
Subscribe to:
Posts (Atom)